#ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ریاست پر ایک ظالم حکمران حکومت کرتا تھا ،اور اس کی رایا نے کبھی اسے برا نہیں کہا تھا۔ تو ایک دن اس نے یہی دیکھنا چاہا کہ کیا اس کی عوام اس کے خلاف جا سکتی ہے؟
تو اس نے اگلے دن ایک کام کیا کہ اپنی ریاست میں کچھ لوگوں کو منتخب کر دیا کہ ہر روز صبح صبح جو بھی آدمی اپنے کام پر جانے لگے اسے راستے میں دو دو جوتے مارے جائیں۔۔۔۔۔۔!
تو بادشاہ کے حکم پر عمل درآمد شروع ہوا روز یہی چلتا رہا لوک آرام سے جوتے کھا لیتے اور اپنے کام پرچلے جاتے۔۔۔۔!
دو تین دن گزرنیں کے بعد بادشاہ نے پانچ پانچ جوتے کر دیے لیکن کوئی ریسپانس نہ ملا تو بادشاہ نے دس دس جوتے کر دیے!!!!
تب جا کر ایک گروہ اجتماعی شکل میں دربار میں حاضر ہوا،بادشاہ کو بہت خوشی ہوئی کہ میری عوام میں حرکت پیدا ہو گئی ہے۔۔۔۔۔
تو جو گرو بادشاہ کے پاس آیا ان سے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ بادشاہ سلامت ہم روز اپنے کام پر جانے سے لیٹ ہو جاتے ہیں لہٰزا جوتے مارنے والے سپاہیوں کی تعداد بڑھا دی جائے تاکہ ہم کام پر جلدی جا سکیں!!!!۔۔۔۔۔۔
تو دوستو اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو ہماری صورتیحال بھی ایسی ہی ہے۔۔۔۔
ہم 70 سال سے آزاد ہوئے ہیں مگر ذرہ بھی ترقی نہیں پائی۔۔۔
آج بھی ہمارے بچے بچے پر 200000 سے زیادہ قرذا ہے۔۔۔۔
کبھی ہمارے سروں پر ذرداری آ جاتا ہے وہ ملک لو ٹ لیتا ہے اور ہم صرف برا بھلا کہ کر چپ کر جاتے ہیں اور کبھی ہم نواز شریف اور ان کے خاندان کے غلام بن جاتے ہیں تو ہوتا کیا ہے وہ بھی پاکستان کو لوٹ کر نااہل ہو جاتا ہے کہانی ختم ہو جاتی ہے تو کبھی انصاف کا نعرہ لگانے والے قادری اور عمران آ جاتے ہیں ان سے کیا آپ نے کبھی پوچھا ہے کہ آپ نے اس بے حال ملک کے لیے کیا کیا ہے یہ سب پاکستانی ہیں اور میں یہی کہوں گا کہ جیسی دوکھہ باز عوام ویسے لٹیرے حکمران فرق کوئی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو میرے معزز ہم وطنوں کیوں کہتے ہو کہ ہم آزاد ہیں؟؟؟؟
اگر ذرا بھی غیرت ہے تو سوچو!!!!!
میرا وطن مجھ سے سوال کر رہا ہے کہ:
میں کس کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کروں
سبھی شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
www.muzonl.blogspot.com
No comments:
Post a Comment